موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار منکرِ حق کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہی قبر کی طرف سفر شروع کر دیتا ہے۔ جو بھی پیدا ہو گا وہ ایک دن ضرور مرے گا۔ بقاء صرف بنانے والے کو ہے بنی ہوئی ہر شئے کو فنا ہے۔ انسان بھی بنا ہوا ہے لیکن اس کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ یہ فنا تو ہو گا لیکن اس کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ کیوں کہ یہ واحد مخلوق ہے جسے عقل وشعور سے نوازا گیا اور ارادہ واختیار کی آزادی دے کر دنیا میں بھیجا گیا تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ چنانچہ اسی بنا پر اسے دوبارہ زندہ کر کے اس سے دنیا میں کارکردگی کی رپورٹ لی جائے گی۔ یہ رپورٹ اگر اطمینان بخش نکلی یعنی وہ آزمائش میں پورا اترا تو اسے انعام کے طور پر جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، نہ اس کو وہاں سے نکالا جائے گا نہ وہ خود وہاں سے نکلنا چاہے گا۔ اور اگر رپورٹ خراب نکلی یعنی آزمائش میں نا کام ثابت ہوا تو بطور سزا جہنم میں بھیج دیا جائے گا اور اسے بھی وہاں ہمیشہ رہنا ہو گا، وہ وہاں سے نکل کر بھاگنا چاہے گا لیکن بھاگ نہیں سکے گا کیوں کہ وہاں تُند خُو فرشتے نگرانی پر مامور ہوں گے۔
یہ بات انسان کی سرشت میں بھی رکھ دی گئی اور پیغمبروں کو بھیج کر بھی بتا دی گئی کہ ان کا معبود ایک اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے، موت کے بعد ایک اور زندگی ہو گی جہاں اس کو دنیا میں اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ نیک اعمال کا بدلہ جنت اور برے اعمال کا بدلہ جہنم ہو گا۔ تو جو لوگ پیغمبروں کی بات مان کر دنیا میں نیک عمل کیے ہوں گے وہ جنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر اپنی خوش انجامی پر مسرور ہو رہے ہوں گے اور شکر بجا لا رہے ہوں گے اور جن لوگوں نے انکار کیا ہو گا اور سرکشی کی رَوش اختیار کی ہو گی وہ جہنم کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے اور پچھتا رہے ہوں گے، افسوس کر رہے ہوں گے اور فریاد کر رہے ہوں گے کہ انہیں دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تاکہ وہ کچھ نیک عمل کر سکیں۔ لیکن ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی کیوں کہ نہ یہ دنیا ہو گی نہ اس کی رنگینیاں جس کی چکا چوند نے ان کو اس دن سے غافل کر دیا تھا۔۔
محمد عزیزالدین خالد
حیدر آباد۔
Disclaimer: The views expressed in this blog post are those of the authors and do not necessarily reflect the views of Jamaat-e-Islami Hind Telangana