اسلام کا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان قدرت کا شاہکار ہے اور اس دنیا کے باغ کا سب سے حسین پھول ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کے سر پر تعظیم و تکریم کا تاج رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (سورہ تین ۴) ہم نے انسان کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔
اللہ کے نزدیک انسان کی قدر و قیمت کی انتہا یہ ہے کہ مخلوق کو عیال اللہ یعنی خدا کا کنبہ کہاں گیا ہے (حدیث شریف)

‌انسان کا خدا سے اور خدا کا انسان سے جو نازک تعلق ہے اس کو ایک حدیث قدسی میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسان سے کہے گا ائے میرے بندے! میں بیمار تھا تو عیادت کے لیے نہیں آیا؟ بندہ کہے گا، پروردگار! تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے تُو تو سارے جہاں کا پروردگار ہے؟ ارشاد ہوگا کہ تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تُو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر ارشاد ہوگا کہ اے انسان! میں نے تجھ سے کھانا طلب کا تھا تو نے مجھے کھلایا نہیں، وہ کہے گا کہ پروردگار! میں تجھے کیسے کھلاتا جبکہ تو خود پالن ہار ہے۔ ارشاد ہوگا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا، اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ پھر ارشاد ہوگا کہ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا؟ بندہ پھر ویسے ‌ہی جواب دے گا، ارشاد ہوگا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا تو نے اس کو پانی نہیں پلایا، اگر تو اس کو پانی پلاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا (مسلم)

اللہ تعالٰی نے انسانی جان کی حرمت کے بارے میں فرمایا: ”جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانون کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی“ (سورہ مائدہ : ۳۲)
انسانی زندگی کی حرمت وعظمت کے معاملے میں فرد اور جماعت میں کوئی فرق نہیں ہے، ایک ایک فرد قیمتی اور ایک ایک جان انسانیت کی عزیز متاع ہے۔ اسلام میں ہر انسان کا ایک جیسا مقام ہے نہ کوئی چھوٹا اور نہ کوئی بڑا۔ فرق جو کچھ ہے وہ نیک و بد ہونے کے اعتبار سے ہے۔ پس اللہ جسے جو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر اعتبار سے انسان کو اپنی اطاعت اور رسول ﷺ کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ خود بھی نیک بنے اور دوسروں کو بھی نیکی کے راستے کی طرف دعوت دے۔

تبسم بنت اسماعیل،
حیدرآباد۔

Disclaimer: The views expressed in this blog post are those of the authors and do not necessarily reflect the views of Jamaat-e-Islami Hind Telangana