انسان کو اخلاق کس نے سکھائے ہیں؟

انسان کو اخلاق خود اس کے خالق و مالک نے سکھائے ہیں کیوں کہ یہ اسی کا حق تھا کہ وہ انسان جیسی ذی عقل و ذی شعور ہستی کو پیدا کر کے دنیا میں بھیجنے کے بعد اس کو زندگی گزارنے کے طریقے بھی سکھاتا۔ چنانچہ اس نے انسان کی سرشت میں نیکی اور برائی کے رجحانات رکھ دیے پھر اس کی رہنمائی کے لیے کچھ نیک انسانوں (پیغمبروں) کا انتخاب کیا، ان پر وحی کے ذریعے تعلیمات نازل کیں اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان تعلیمات پر خود بھی ایمان لا کر پوری طرح عامل ہو جائیں اور انہیں دیگر انسانوں تک بھی پہنچا دیں۔ انہی تعلیمات کا نام اسلام ہے۔ چنانچہ خدا کے یہ پیغمبر دنیا کے کونے کونے میں پہنچے یا ان کے ماننے والے پہنچے اور وہاں بسنے والے انسانوں کو ان تعلیمات سے روشناس کرایا۔
آج دنیا میں جس مذہب میں بھی یہ تعلیمات جس حد تک بھی پائی جاتی ہیں وہ انہیں پیغمبروں کی یا ان کے ماننے والوں کی پہنچائی ہوئی تعلیمات کی باقیات ہیں اور جس شخص کے اندر بھی جذبہ انسانیت پایا جاتا ہے وہ خداوند عالم کا ودیعت کردہ ہے۔
اسلام کی سب سے آخری کتاب آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی جسے آپ قرآن کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ کتاب ہر قسم کی تحریفات سے پاک ہے۔ یہ آج سے لے کر دنیا کے خاتمے تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور روشنی ہے جس پر ایمان لا کر آدمی دنیا میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے اور مرنے کے بعد والی زندگی میں بھی سُرخرو ہو سکتا ہے۔ دوسری صورت میں ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں وہ کچھ کامیابیاں حاصل کر لے لیکن آخرت میں وہ خسارے میں رہے گا۔
محمد عزیزالدین خالد
حیدرآباد۔

Disclaimer: The views expressed in this blog post are those of the authors and do not necessarily reflect the views of Jamaat-e-Islami Hind Telangana

Read More

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار منکرِ حق کے لیے بھی ممکن نہیں ہے

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار منکرِ حق کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہی قبر کی طرف سفر شروع کر دیتا ہے۔ جو بھی پیدا ہو گا وہ ایک دن ضرور مرے گا۔ بقاء صرف بنانے والے کو ہے بنی ہوئی ہر شئے کو فنا ہے۔ انسان بھی بنا ہوا ہے لیکن اس کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ یہ فنا تو ہو گا لیکن اس کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ کیوں کہ یہ واحد مخلوق ہے جسے عقل وشعور سے نوازا گیا اور ارادہ واختیار کی آزادی دے کر دنیا میں بھیجا گیا تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ چنانچہ اسی بنا پر اسے دوبارہ زندہ کر کے اس سے دنیا میں کارکردگی کی رپورٹ لی جائے گی۔ یہ رپورٹ اگر اطمینان بخش نکلی یعنی وہ آزمائش میں پورا اترا تو اسے انعام کے طور پر جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، نہ اس کو وہاں سے نکالا جائے گا نہ وہ خود وہاں سے نکلنا چاہے گا۔ اور اگر رپورٹ خراب نکلی یعنی آزمائش میں نا کام ثابت ہوا تو بطور سزا جہنم میں بھیج دیا جائے گا اور اسے بھی وہاں ہمیشہ رہنا ہو گا، وہ وہاں سے نکل کر بھاگنا چاہے گا لیکن بھاگ نہیں سکے گا کیوں کہ وہاں تُند خُو فرشتے نگرانی پر مامور ہوں گے۔
یہ بات انسان کی سرشت میں بھی رکھ دی گئی اور پیغمبروں کو بھیج کر بھی بتا دی گئی کہ ان کا معبود ایک اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے، موت کے بعد ایک اور زندگی ہو گی جہاں اس کو دنیا میں اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ نیک اعمال کا بدلہ جنت اور برے اعمال کا بدلہ جہنم ہو گا۔ تو جو لوگ پیغمبروں کی بات مان کر دنیا میں نیک عمل کیے ہوں گے وہ جنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر اپنی خوش انجامی پر مسرور ہو رہے ہوں گے اور شکر بجا لا رہے ہوں گے اور جن لوگوں نے انکار کیا ہو گا اور سرکشی کی رَوش اختیار کی ہو گی وہ جہنم کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے اور پچھتا رہے ہوں گے، افسوس کر رہے ہوں گے اور فریاد کر رہے ہوں گے کہ انہیں دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تاکہ وہ کچھ نیک عمل کر سکیں۔ لیکن ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی کیوں کہ نہ یہ دنیا ہو گی نہ اس کی رنگینیاں جس کی چکا چوند نے ان کو اس دن سے غافل کر دیا تھا۔۔
محمد عزیزالدین خالد
حیدر آباد۔

Disclaimer: The views expressed in this blog post are those of the authors and do not necessarily reflect the views of Jamaat-e-Islami Hind Telangana

Read More