مولانا یوسف اصلاحی صاحب کی رحلت سے جماعت اسلامی ہند اپنے ایک جہاندیدہ بزرگ سے محروم ہوگئی
پریس ریلیز
مولانا یوسف اصلاحی صاحب کی رحلت سے جماعت اسلامی ہند اپنے ایک جہاندیدہ بزرگ سے محروم ہوگئی: امیر جماعت اسلامی ہند
نئی دہلی: مولانا یوسف اصلاحی کی رحلت پر امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اخبار کو جاری کردہ اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ جماعت اسلامی ہند اپنے ایک تجربے کار و جہاں دیدہ بزرگ سے محروم ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مولانا مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نہایت مقبول کتابیں ہیں جنہوں نے بلا مبالغہ کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ان کی کتاب’آداب زندگی‘ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے ان گنت مسلمان گھروں کے بک شیلف کا لازمی حصہ ہے۔ مائیں اپنی بچیوں کوشادیوں کے موقعے پر اس کتاب کا تحفہ اس امید کے ساتھ دیتی ہیں کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگیاں سلیقہ مند اور اسلامی آداب کی آئینہ دار ہوں گی۔ مولانا مرحوم کی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ سنجیدہ اہل علم سے لے کر عام گھریلو خواتین بلکہ چھوٹے بچے بھی ان کی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں۔ آسان، سادہ لیکن دلکش زبان اور پرکشش اسلوب میں بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترسیل و ابلاغ کا جو ملکہ اللہ نے مرحوم کو عطا کیا تھا، اس کی نظیر مشکل ہی سے نظر ٓاتی ہے۔ مولانا مرحوم کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دنیا بھر میں ہندوستان کی اسلامی تحریک کے تعارف کا ذریعہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر میں جماعت اسلامی ہند کے تعارف کے لیے یوسفین کا انتخاب فرمایا۔ ایک سابق امیر جماعت مولانا محمد یوسف جنہوں نے عالم عرب میں جماعت کو متعارف کرایا اور ایک مولانا یوسف اصلاحی جو عالم مغرب میں جماعت کے تعارف کا ذریعہ بنے۔ ناموں کے اشتراک کی وجہ سے بیرون ملک کئی لوگ مولانا یوسف اصلاحی ہی کو سابق امیر جماعت مولانا محمد یوسف بھی سمجھتے رہے۔مولانا مغربی دنیا میں بے حد مقبول تھے اور امریکہ، یورپ آسٹریلیا، جاپان وغیرہ کثرت سے جاتے رہے بلکہ برسوں سے سال کا کم سے کم نصف حصہ وہ انہی ملکوں میں گذارا کرتے تھے۔ مولانا کی تقریریں بھی ان کی کتابوں کی طرح پر کشش اور خاص و عام میں مقبول تھیں۔ شخصی وجاہت، باوقار آواز، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی خوبصورت اردو، اور امیدیں پیدا کرنے والا اور حرکت و عمل پر آمادہ کرنے والا پیغام۔ان ساری خصوصیات کے امتزاج کی وجہ سے ان کے خطابات میں بڑی کشش و جاذبیت ہوتی تھی۔ مولانا ایک اچھے قاری بھی تھے۔ان کی آواز میں وقار وبلند آہنگی اور لطافت ونغمگی، دونوں خصوصیات کا نادر امتزاج تھا۔ اس مخصوص آواز میں ان کی تلاوت قرآن، وجد کی کیفیت پیدا کردیتی۔ آج بھی ان کے انتقال کی خبرسے جو یاد تازہ ہوئی ہے وہ مرکز کی مسجد میں فجر کی نماز میں سنی ہوئی ان کی تلاوت ہی کی یاد ہے۔’آداب زندگی‘ مصنف کی شخصیت، اسلامی سلیقہ مندی اور نفاست ذوق کا خوبصورت نمونہ تھی۔ لباس، کھانے پینے کے اطوار، گفتگو، نشست و برخاست ہر معاملے میں اعلٰی درجے کی شائستگی، وضعداری اور رکھ رکھاو ان کی شخصیت کا نہایت پر کشش پہلو تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کی ہمہ گیر و طویل خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔
جاری کردہ
سید تنویر احمد، سکریٹری شعبہ میڈیا، جماعت اسلامی ہند
موبائل: 9916827795 / 9844158731
ڈی 321، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی